آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رلاتا ہے بہت
وہ دسمبر , ہر دسمبر , یاد آتا ہے بہت
ساتھ میرے بھیگتا ہے بارشوں میں بیٹھ کے
یاد کے سارے دریچے کھول جاتا ہے بہت
روندھ دیتا ہے جہاں کی ساری دیواریں کھڑی
دو قدم پہ تم کو لا کے آزماتا ہے بہت
مسکراھٹ, گنگناہٹ, قہقہے, باتیں تیری
خواب بن کے رات بھر مجھ کو جگاتا ہے بہت
جانتا ہے اب نہیں رکھتا کوئی امید میں
راہوں میں اندھے کی پر شمعیں جلاتا ہے بہت
مجھکو دے دیتا ہے چھپ کے تیری خوشبو کا پتہ
ایک دیوانے کو پاگل یہ بناتا ہے بہت
خواھشوں کے بیج بو کے خود چلا جاتا ہے یہ
وہ دسمبر , ہر دسمبر . دل دکھاتا ہے بہت