گھر سے نکلا تھا کہ
دنیا کو بدل ڈالوں گا
کیا غضب ہے کہ خود ہی
روز بدل جاتا ہوں
روح چیخے ہے میری
کام توں آ لوگوں کے
نفس اڑتا ہے تو
یہ سوچ بدل جاتا ہوں
ہر گھڑی ساتھ ہی
رہتے ہیں میرے کیا,کیوں,کب
ان سے بچنے کو
ارادے ہی بدل جاتا ہوں
سچ کی راہوں پہ
نکلتا ہوں بڑی نیت سے
جانے پھر کیسے وہ
رستے ہی بدل جاتا ہوں
بولتا ہوں میں لفظ
سارے ہی میٹھے میٹھے
کیا کروں لہجے سے
مطلب ہی بدل جاتا ہوں
جب بھی خوشبو سے
لگایا ہے یہاں جی میں نے
پھول چھوتا ہوں تو
کانٹوں میں بدل جاتا ہوں
میں نہ مانوں گا مگر
بات حقیقت ہے یہ
لوگ رہتے ہیں وہی
میں ہی بدل جاتا ہوں
................................... اتباف ابرک